Beauty of Jammu Snow Top Hills


وسط فروری سے وسط مارچ کے درمیان جب بارشوں کے بعد موسم کھلنے لگے تو جموں و کشمیر کے برف پوش پہاڑ، جنہیں پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے کے نام سے جانا جاتا ہے، یوں نظر آنے لگتے ہیں جیسے یہیں کہیں آس پاس موجود ہوں۔ یہ نظارہ گجرات سے نارووال تک کے سارے علاقے میں کیا جا سکتا ہے۔ عام دنوں میں گرد و غبار کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔ یہ برفوں سے ڈھکے ہمالیائی سلسلے کے پہاڑ مون سون میں بارشوں کے بعد مطلع صاف ہونے پر بھی دِکھتے ہیں مگر ایسے جیسے خدا نے زمین میں کالے کیل گاڑ رکھے ہوں۔ ان میں چھ ہزار میٹر سے بلند کوئی چوٹی نہیں لہٰذا موسمِ گرما میں ان کی برفیں پگھل جاتی ہیں، سفید چادر اتر جاتی ہے۔
دریائے چناب کے کنارے آباد سیالکوٹ ہنرمندوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاید چناب کا ہی اثر ہے کہ جس کے پانیوں میں ایسا امرت گھلا ہے کہ اس کے کنارے بسنے والے شہر، بستیاں، گاؤں زمین کے ساتھ ذہن سے بھی سدابہار زرخیز ہیں۔ اقبال، فیض احمد فیض اور شیوکمار بٹالوی سمیت کئی ذہین لوگوں نے یہاں سے جنم لیا۔ دریائے چناب شہر سے 20 کلومیٹر دور مرالہ کے مقام پر پرسکون بہتا رہتا ہے۔ مجھے دریاؤں سے عشق ہے اور چناب سے ایسا رشتہ ہے جسے الفاظ میں سمونا ممکن نہیں۔ سیالکوٹ کا باسی ہونے کے ناطے مجھے یہ سہولت حاصل ہے کہ صاف موسم میں بارشوں کے بعد میں دریائے چناب سے باتیں کرنے اور پس منظر میں دکھائی پڑنے والے برف پوش پہاڑوں سے شمال کی یادیں بہلانے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔ محبتوں کے دریا چناب کے پانیوں میں آج بھی سوہنی کے گھڑے کی گھلاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
جموں کے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے نالے کی صورت بہتا یہ دریا سرحد کے اس پار چندربھاگ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جوں جوں پانی سفر کرتے ہیں ہمالیہ کے پہاڑوں سے پگھل کر آنے والی برفیں ان میں شامل ہو کر اسے دریا کا روپ دیتی جاتی ہیں۔ پہاڑوں سے اتر کر کھلے میدانی علاقے میں پہنچنے تک چندربھاگ اپنا نام بدل لیتا ہے۔ چناب بہتا رہتا ہے۔ ہیڈ تریموں کے مقام پر دریائے جہلم اس میں آن ملتا ہے اور کچھ آگے راوی اور ستلج کے پانی اس میں گھل جاتے ہیں۔ پھر یہ پانیوں کا ریلا اپنے آپ کو بزرگ دریائے سندھ کے سپرد کر دیتا ہے اور دریائے سندھ خاموشی سے ان پانیوں کی انگلی تھامے سفر کرتا سمندر میں اتر جاتا ہے۔

لگ بھگ ایک ہزار کلومیٹر سے زائد مسافت طے کرتا دریائے چناب اپنے اطراف بسی آبادیوں کو سیراب کرتا چلتا رہتا ہے۔ اس کے پانیوں میں کہیں کشمیر کی مٹی ہے تو کہیں سوہنی کے گھڑے کی گھلاوٹ۔ کناروں پر وفا کی انمٹ لوک داستانیں بکھری ہوئی ہیں جن میں رانجھے کے چپو بھی ڈھلے ہوئے ہیں۔ اپنے محبوب سے ملنے کی چاہ میں کچے گھڑے والی ڈوب گئی لیکن داستانوں میں امر ہو گئی۔ چناب کنارے پانیوں کی روانی کو دیکھ کر مجھے مصطفیٰ زیدی کا یہ شعر اکثر یاد آنے لگتا ہے




























Pic Credit : Syed Mehdi Bukhari
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا