تعلیمی اداروں میں زائد از نصابی اور ہم نصابی سرگرمیاں کہاں گئیں؟
پاکستان بھر کے
تعلیمی اداروں ، سکولز ، کالجزاور جامعات میں ایک طویل عرصے سے تعلیم و تدریس کے
ساتھ ساتھ مختلف کھیلوں، غیر نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں ، سالانہ جلسہ ہائے
تقسیم انعامات و اسناد (کانووکیشن)علمی مجلوں اور خبرناموں کی اشاعت، مضامین اور
دیگر پہلوؤں پر مجالس سوسائٹیز اور کلبوں کے قیام کی روایات بہت پرانی ہیں۔ قدیم
دور سے ہمارے سکولوں میں بزمِ ادب ، مارننگ اسمبلی اور علامہ اقبال کی مشہور دعا
لب
پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی
شمع کی صورت ہو خدایا میری
یہ
دونوں نظمیں جب اسمبلی میں پڑھی جاتیں تو طلباء و طالبات کے ذہنوں پر سارا دن ان
کا اثر رہتا۔ ہمارے ہاں شروع سے ہی سکولوں میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، بیڈمنٹن، ٹیبل
ٹینس اور دیگر کھیلوں میں بھی طلباء و طالبات کی بے حد دلچسپی رہتی تھی۔ یہی نہیں
اتھلیٹس اور جمناسٹک میں بھی طلباء وطالبات بے حد دلچسپی لیتے تھے۔ سکاؤٹنگ اور
گرل گائیڈنگ میں بھی طلباء و طالبات شرکت کرتے تھے۔ سکولوں میں کلاسز کے مانیٹر
مقرر ہوتے تھے اور ہیڈ گرلز بھی۔ جو طلباء و طالبات کے لئے ایک اعزاز ہوتا تھا۔ میٹرک
بلکہ اس سے قبل مڈل کی سطح پر تقریری مقابلے اور مباحثے ہوتے تھے اور سکولوں سے
سکول میگزین کا اجراء کیا جاتا۔ جس میں طلباء کی گہری دلچسپی تھی اور سکول میگزین
کی مجلاس ادارت میں شریک ہونا بھی طلباء و طالبات کے لئے ایک اعزاز تھا۔ سکولوں
میں مضمون نویسی کے مقابلے ، بیت بازی اور شعروسخن کی محفلیں بپا ہوتی تھیں۔ ایک
زمانہ تھا جب تعلیم و تدریس کا بیشتر حصہ سرکاری اداروں پر مشتمل تھا۔ ان اداروں
کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات اعلیٰ سرکاری مناصب پر پہنچتے اور اپنے سکولوں کا
نام روشن کرتے ۔ قیام پاکستان کے بعد صدر ایوب کے دور میں کیڈٹ کالجز، پائلٹ
سکینڈری سکولز، کمپری ہینسو سکولز اور سنٹرل ماڈل سکول قائم ہوئے۔ لاہور میں لوئر
مال کا سنٹرل ماڈل سکول بہت قدیم تھا۔ اسی طرز پر نئے سنٹرل ماڈل سکولز وجود میں
آئے۔ ہمارے ہاں شروع سے ہی سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ مشنری سکول بھی قائم ہوئے
تھے۔ سینٹ اینتھونی سکول ، مشن ہائی سکول، ڈان باسکو سکول، سینٹ فرانسس سکول نہ
صرف تعلیم و تدریس کو فروغ دے رہے تھے بلکہ ان میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں
کھیلوں، اتھلیٹس اور جمناسٹکس کے علاوہ تفریحی دوروں سکاؤٹنگ ، گرلز گائیڈنگ، مینا
بازاروں ، سالانہ تقریب تقسیم انعامات موسیقی اور ڈراموں کا بھی رواج تھا ۔ اسی
دوران کریسنٹ ماڈل سکولز بھی وجود میں آئے اور ان بھی زائد از نصابی اور ہم نصابی
سرگرمیوں کا دوردورہ رہا۔ سکولوں کے طلباء و طالبات کو باغِ جناح ، چڑیا گھر، ریس
کورس پارک، مقبرہ جہانگیر ، ہرن مینار، شاہی قلعہ، کھیوڑہ کی کان نمک، وادی سون
سکسیر میں کلر کہار، اسلام آباد ، مری، سوات، وادی کاغان، ناران، جھیل سیف الملوک
اور دیگر مقامات کے معلوماتی اور تفریحی دوروں پر جاتے اور ان کے اساتذہ بھی ان کے
ہمراہ ہوتے۔ پھر بعض حادثات کی وجہ سے ان تفریحی اور مطالعاتی دوروں کے لئے قواعد
و ضوابط وضع کئے گئے اور انہیں ایک نظم و ضبط میں لایا گیا۔ جہاں تک یونیورسٹیوں ،
میڈیکل کالجز ، پروفیشنل کالجز، ہوم اکنامکس کالجز اور تمام دیگر کالجز میں نصابی
، ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا تعلق ہے، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ان
سرگرمیوں کا مرکز ومحور رہی ہے۔ شعبہ ابلاغیات یونیورسٹی اور ینٹل کالج، لاء کالج،
ہیلے کالج آف کامرس ، اسلامک سنٹر، شعبہ فلسفہ ، سیاسیات، عمرانیات ، تاریخ ، زبان
و ادبیات انگلش ، اقتصادیات ، باٹنی، کمیسٹری، فزکس، اور دیگر تمام شعبہ جات ہم
نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلباء و طالبات کی شخصیت کو جلا بخشتے رہے
ہیں اور ان کی خود اعتمادی میں اضافے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ یونیورسٹی اورینٹل
کالج کے شعبہ جات اردو، عربی ، فارسی اور پنجابی بطور خاص ہم نصابی سرگرمیوں کے
لئے معروف رہے ہیں اور نابغہ روزگار اساتذہ ان سرگرمیوں کی نگرانی اور سرپرستی
کرتے رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا علمی و ادبی مجلہ " محور" دنیا بھر کی
جامعات میں ایک ممتاز مقام کا حامل ہے اور نامور شخصیات اس کی مجلس ادارت میں شامل
رہی ہیں۔
پنجاب
یونیورسٹی کی محافل مشاعرہ میں ملک بھر سے معروف و ممتاز شعراء طلباء وطالبات اور
اساتذہ کو اپنے کلام سے گرماتے رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں ایک ریڈیو
اسٹیشن اور ایک ٹی وی سٹوڈیو بھی قائم کیا گیا ہے۔ ٹی وی سٹوڈیو میں مختلف
دستاویزی فلمیں بنائی جاتی ہیں اور مجالس مذاکرہ کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ جب تک
طلباء یونینز پر پابندی نہیں تھی ۔ جامعہ کے انتخابات بھی زبردست گہما گہمی کا
باعث تھے۔ اب ذرابرصغیر ایشیاء کی معروف و ممتاز دانشگاہ جی سی یونیورسٹی کی طرف
چلتے ہیں ۔ اس ادارے نے کامنی کوشل ،دیوآنند ، بانو قدسیہ ، اشفاق احمد ، مجید
نظامی، جسٹس ایس اے رحمن، جسٹس انوارالحق ، نسیم حسن شاہ ، ڈاکٹر ثمرمبارک مند ،
حدیقہ کیانی، جسٹس ایم آر کیانی، ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، میاں محمد نوازشریف،
شہباز شریف، کامران لاشاری، شاہد رشید، قاضی آفاق حسین، نذیر سعید اور عابد سعید
جیسی شخصیات کو جنم دیا۔ یہ تمام شخصیات غیر نصابی سرگرمیوں کی بدولت ابھریں۔یہ
صاحبانِ علم و کمال کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس میں ناصر کاظمی، حفیظ ہوشیارپوری،
پطرس بخاری، صوفی غلام مصطفی تبسم، فیض احمد فیض، ن م راشد، میرا جی، ضیاء
جالندھری، جاوید قریشی، اے ایڈ کے شیر دل، مولانا جعفر قاسمی، محمد حسین صوفی، جی
ڈی سوندھی، ڈاکٹر سید نذیر احمد ، اشفاق علی خان، پروفیسر سراج الدین ، ڈاکٹر محمد
اجمل، صدیق کلیم، فضاء الرحمن ، پروفیسر ایم رشید ، ڈاکٹر مجید اعوان، ڈاکٹر خالد
آفتاب، ڈاکٹر شفیق الرحمن اور موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ
ہمیشہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرتے رہے ہیں ۔
اس ادارے نے حافظ سلمان بٹ، میاں محمد اظہر، جاوید میانداد ، اختر رسول جیسی
شخصیات کو جنم دیا ۔ اسی طرح گلوکار جواداحمد، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بیشمار
معروف آرٹسٹ ، موسیقار، اخبار نویس، ٹی وی اینکر، اعلیٰ بیوروکریٹس ، ماہرین قانون
جو اس ادارے کی غیر نصابی سرگرمیوں کی جان رہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ، ایس ایم ظفر،
پرویزمسعود، ڈاکٹر محمد عارف، حنیف رامے، ڈاکٹر امجد پرویز، مشتاق ہاشمی، ڈاکٹر
فقیر حسین ساگا، پروفیسر صابر لودھی، توقیر احمد شیخ، اکرام ربانی، سلیم اختر، میرزا
محمد منور، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی ، پروفیسر شاہد حسین، ڈاکٹر سید رضی واسطی ،
ڈاکٹرشفقت، پروفیسر خواجہ محمدسعید، ڈاکٹر معین الرحمن، عباس نجمی، ڈاکٹر اقبال
ثاقب، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد، پروفیسر صائمہ ارم، ڈاکٹر اقصیٰ ساجد ، بابر
نسیم آسی، محسن فارانی، پروفیسر سمیر (انگلش)، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر سعادت
سعید، ڈاکٹر نیر حمدانی، پروفیسر صدیق اعوان، ڈاکٹر ہارون قادر، غلام الثقلین
نقوی، میرزا ریاض، شفیق عجمی، پروفیسر نور محمد ملک مختلف شعبہ جات اور علمی ،
ادبی، ثقافتی انجمنوں ، راوی کالج گزٹ، میوزک سوسائٹی ، ڈرامیٹک کلب، بریٹ فلاسیکل
سوسائٹی سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی ، بزم مباحثہ ، گورنمنٹ کالج گزٹ ، مجلس اقبال،
مجلس صوفی تبسم ، بلڈ ڈونیشن سوسائٹی ، کانووکیشن کمیٹی، لائبریری کمیٹی، اولڈ
راوینز یونین، بزم نذیر، پنجابی مجلس، مجلس علوم اسلامیہ، انگلش لٹریری سوسائٹی،
الغرض بے شمار مجالس اور سوسائٹیز دن رات سرگرم عمل رہتی ہیں اور اس حوالے سے قائد
اعظم ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ جو کالج کے چیف لائبریرین اور معروف ادیب ہیں۔ جناب
عبدالوحید، سنٹر لائبریرین محمد نعیم، پروفیسر روبینہ کوکب، ڈاکٹر خالد محمود
سنجرانی، پروفیسر آغا حیدر، پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران، پروفیسر محمد ابراہیم،
محمد اعظم خان، ڈاکٹر غزالہ یاسمین بٹ، خادم علی خان، ڈاکٹر نصرت جہاں، پروفیسر
محمودالحسن نیری، پروفیسر ڈاکٹر خالد منظوربٹ، پروفیسر یوسف بشیر، محمد اعظم خاں
شب و روز طلباء و طالبات کو ہم نصابی سرگرمیوں کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتے
ہیں۔
گورنمنٹ
کالج یونیورسٹی کے علمی و ادبی مجلہ راوی کی اشاعت کو اب ایک سو دس سال ہو چکے
ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ بیس سالوں سے یہ مجلہ صوری اور معنوی خوبیوں سے پہلے کی بہ نسبت
بدرجہ ھا آراستہ ہو چکا ہے۔ اسے موجودہ خدوخال اور گیٹ اپ دینے میں پروفیسر
صابرلودھی ، ڈاکٹر نیرصمدانی ، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعیداور ڈاکٹر خالد محمود
سنجرانی کی شبانہ روز کوششوں کا عمل دخل رہا ہے۔ اب مجلہ راوی، فنون، نقوش اور
دیگر ادبی جرائد کی طرح سے ایک مکمل علمی و ادبی جریدہ بن چکا ہے اور یہ صرف ایک
کالج یا ایک یونیورسٹی کا میگزین نہیں رہا۔ ابھی حال ہی میں راوی کا" 150
سالہ جشن نمبر" شائع ہوا تھا۔ جسے ملک بھر کے علمی و ادبی حلقوں سے پذیرائی
کا شرف حاصل ہوا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر
حسن امیر شاہ مجلہ راوی کی مزید سرپرستی کرتے ہوئے اس کے موجودہ معیار میں اضافے
کے لئے مزید اقدامات کریں گے۔
گورنمنٹ
کالج میں تقریبات کے انعقاد کے لئے ایک وسیع و عریض بخاری آڈیٹوریم جس کی ہر لحاظ
سے تزئین و آرائش کی گئی ہے، اولڈ ہال سرفضل حسین تھیٹر، فیض ہال اور سٹاف روم
موجود ہیں۔ جہاں درجہ بدرجہ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جی سی کی میوزک
سوسائٹی اور ڈرامیٹک کلب اپنی درخشاں روایات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وائس چانسلر
ڈاکٹر حسن امیر شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرانی روایات اور ہم نصابی سرگرمیوں کے
ساتھ ساتھ نئی روایات اور نئی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
جہاں
تک کالجز میں ہم نصابی سرگرمیوں کا تعلق ہے ۔ ایف سی کالج جواب ایک یونیورسٹی کا
درجہ اختیار کر چکا ہے ، پرائیویٹ سیکٹر کی جامعات اور کالجز کے علاوہ گورنمنٹ
کالجز میں ایم اے او کالج، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج سول لائنز،
گورنمنٹ دیال سنگھ کالج، گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ، گورنمنٹ کالج گلبرگ،
گورنمنٹ کالج ماڈل ٹاؤن، گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ ، لاہور کالج برائے خواتین
یونیورسٹی، کنیئرڈ کالج، کوئین میری کالج، ہوم اکنامکس کالج، اپواکالج، گورنمنٹ
کالج برائے خواتین سمن آباد الغرض تقریباً تمام سرکاری و نجی ادارے ہم نصابی
سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہین۔ جس سے طلباء طالبات کی خوابیدہ صلاحیتوں کی نشوونما
ہو رہی ہے اور ان کو جلا مل رہی ہے۔ انہی سرگرمیوں کی بدولت طلباء وطالبات عملی
زندگی میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
ہم
نصابی سرگرمیوں کے سلسلے میں ہمارے کالجز، یونیورسٹیوں اور سرکاری سطح پر قائم
لائبریریوں کا بھی گراں قدر رول ہے۔ قائداعظم لائبریری ، پنجاب پبلک لائبریری ،
دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی سنٹرل اور پوسٹ گریجویٹ
لائبریری ، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج سول لائنز ، گورنمنٹ کالج آف
سائنس وحدت روڈ الغرض تمام تعلیمی ادروں کی لائبریریاں ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ
اور مطالعہ کے فروغ میں اہم کردار اد اکر رہی ہیں۔ ان تمام کتاب خانوں کے علاوہ
پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا تذکرہ بھی بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
علامہ اقبال کا یہ شعر ان لائبریریوں اور کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ جو اہل
یورپ یہاں سے اٹھا کر لے گئے تھے۔
Tags:
Education